.
ایمان جو میری بیٹی ہے اور سیکنڈ ایٸیر کی طالبہ ہے،کے فرسث اٸیر کے بورڈ کے پیپرز تھے اور اس کا سینٹر نواز شریف ڈگری کالج براۓ خواتین، منڈی بہاٶالدین تھا.میں اس کے ساتھ ہر پیپر میں (moral support) کے لیےجاتی تھی کیونکہ کالج دور تھا اور وہ اکیلی پریشان نہ ہو،میں وہیں کالج کے لان(lawn) میں اس کا انتظار کرتی۔بہت سی بچیوں کی ماٸیں جو میری طرح اپنی بیٹی کے معاملے میں زیادہ فکرمند ہوتی ہیں ،وہ بھی وہاں موجود ہوتی تھیں۔ایک خاموش احساس اور رشتہ ہم سب میں یہ یکساں طور پر موجود تھا کہ سب کی سب باہر بیٹھ کر اپنی بیٹیوں کی کامیابی کے لیے دعا کرتی رہتی تھیں۔ممکن ہے گھر پر رہ کر بھی دھیان بیٹی کے پیچھے ہی رہتا سو وہ ایک قدم آگے ان کے ساتھ پورے دن کے لیے چلی جاتیں۔ممتا بھی عجیب چیز ہے۔
تھوڑا آگے گٸی تو وہاں چند مزید خواتین درختوں کے نیچے بیٹھی تھیں۔پیپر شروع ہوۓ گھنٹہ بیت چکا تھا اور کلاس رومز اور باہر لان میں بے حد خاموشی تھی۔وہاں ایک چھوٹی سی دس بارہ سالہ بچی سے کینٹین کا رستہ پوچھا تو پتا چلا کہ بند ہے۔خیر میں واپس آگٸ اپنی جگہ پر۔اگست کا مہینہ تھا۔درخت کے ساۓ میں سکون تھا ورنہ گرمی کمال کی تھی۔۔چیونٹیاں بھی بڑے مزے سے میرے اردگرد چکر لگا رہی تھیں اور چند ایک فری (free )ہوکر پیروں اور ٹانگوں پر چڑھنے لگیں میں ان سے الجھ رہی تھی پیر جھٹک کر کہ وہی بچی میرے پاس آٸی اور کہا”انٹی کینٹین (canteen) کھل گٸہے”.!
میں حیران ہوگٸ کہ وہ خصوصی طور پر (especially) مجھے یہ بات بتانے آٸی تھی،حالانکہ میرا کچھ بھی لینٕے کا خاص ارادہ نہیں تھا۔میں نے اس کو thank you کہا اور پرس اٹھا کر چینٹیوں کے حملے(attack)کو نظرانداز(ignore)کرکے اس بچی کے بتاۓ رستے پہ کینٹین کی طرف چل پڑی۔
ایک sweet سی خاتون ہی اندر بیٹھی تھیں۔سلام لے کر میں نے بلاوجہ ہی بسکٹ(biscuits) اور کریکرز (crackers)لے لیے۔واپسی پر اس بچی کے پاس گٸی جو اپنی امی کے پاس بیٹھی تھی۔میں اسے کریکرز (crackers) پیش کیے اور کہا کہ یہ آپ کے لیے ہیں۔اس نے فوراًسے منع کردیا کہ میرے پاس اپنی چیز ہے۔میں نے نہیں لینے۔
میں نے دوبارہ کہا کہ آپ لے لیں کوٸی بات نہیں ۔لیکن انکار ہنوز است!!اس نے ایمانداری سے جواب دیا کہ اس نے ابھی چیز لی ہے۔اسکی والدہ خاموش بیٹھی ہم دونوں کی بات سن رہی تھیں۔انہوں نے ایک لمحہ کے لیے بھی مداخلت نہیں کی اور بیٹی ہی کو مکمل اختیار دیا کہ وہ مجھے یعنی ایک اجنبی عورت کو deal کرے وہ صرف خاموشی سے witnessکررہی تھیں۔جیسے چڑیا اپنے بچوں کو اڑنا سکھاتی ہے اور خود گھونسلے میں بیٹھ کر یا پیچھے رہ کر صرف اپنے بچوں کی اڑان دیکھتی ہے😊
میں یہ ردعمل توقع نہیں کررہی تھی اتنی چھوٹی سی بچی سے کیونکہ عموماً بچے کھانے کی چیز لے لیتے ہیں۔لیکن مجھے اس کی خوداری دیکھ کر خوشی بھی ہوٸی کہ ماشإاللہ اس میں اتنا اعتماد تھا انکار کرنے کا ۔
……As i was really moved by her reply.
اس دن اس چھوٹی سی بچی نے بڑا سا سبق سکھا دیا مجھے ۔جو بات کتابوں میں پڑھتے تھے کہ …..
…کسی کو رستہ دکھا دیں یا کسی کا رستہ بن جاٸیں۔
میں نے اس دن عملی مثال (practical example) اس بچی کی شکل میں دیکھی تھی اور مجھے بے حد خوشی ہورہی تھی اتنا اچھا مستقبل دیکھ کر۔اس کا کردار دو ہی باتوں نے ظاہر کردیا تھا۔وہ جو اتنی honest تھی اپنے معاملے میں اور خودراد بھی وہ کیسے کہیں ناکام ہوسکتی تھی۔جو اپنی ذات میں اتنی پراعتماد تھی۔میرے دل سے اس کے لیے یہی دعا نکلی اس وقت کہ وہ اپنے رب کے سوا کسی کے آگے دستِ سوال نہ کرے،اللہ اسکی محنت قبول کرکے اس کے لیے مستقبل کے رستے ہموار کریں اور اس بچی کی خوداری اور مان کبھی نہ ٹوٹے۔۔آمین
Because when we put our trust in people other than Allah, they break us, break us badly and within. They test us, who is already being tested by fate on a particular point of life. When you are broken once, you can never be that same old person again. No matter how hard you try, or someone else tries with you the damage done once can never be fixed. Either you grow up to be a new version of yourself or become a complete mess of someone else’s mistake.
I pray and hope that, that little girl doesn’t become a prey or morsel at the hands of someone’s bad or evil intentions or deeds.
It’s already way too dark in our lives and matters. May there be more beacons of light, even a small flickering flame will make a lot of difference.
Make or give way to others. Blocking them will not only spoil their route to achieve their dreams but will also make you stagnant and filthy of thoughts and moral character, as you too won’t be able to move ahead or prosper if the whole road is blocked.
A silent message…….. 🤲❤️