scary silhouette fear
Photo by Longxiang Qian on Pexels.com

ڈسٹرکٹ جناح پبلک سکول سے واپس منشی محلہ کی طرف پتلی جو سڑک آتی ہے ،جس کو کینال روڈ کہتے ہیں،وہ ٹوٹی پھوٹی سی ہے (دیگر سڑکوں ہی کی طرح!)۔ ایک طرف خشک سی نہر اور دوسری طرف ہریالی ہے۔کہیں کہیں آبادی بھی ہے۔دونوں طرف بڑے اونچے درخت ہیں۔سو اس روز جب ارشد کے ساتھ ایمان کےکالج سے واپس آرہی تھی اور حسبِ معمول درختوں کو دیکھ رہی تھی ،مجھے اچابک خیال آیا کہ ان درختوں پر ایک بھی گھونسلہ نہیں ہے۔میں سوچ میں پڑھ گٸ کہ اتنے زیادہ درخت اور ایک بھی گھونسلہ نہیں؟

پھر مجھے خیال آیا کہ چونکہ یہاں آمدورفت رہتی ہے ۔کبھی گاڑی،رکشہ ،موٹر ساٸیکل یا گدھا گاڑی وغیرہ گزرتی رہتی ہے، تو یہ پرندے ان راہگیروں کے ڈر سے گھونسلے نہیں بناتے کہ کہیں یہ لوگ ہمارے گھروں اور بچوں کو نقصان نہ پہنچا دیں۔

لوگوں کے چھوٹے بچے تجسس اور شوق گھونسلے نہ توڑ دیں۔جو یہ پرندے تنکا تنکا اکٹھا کرکے بناتے ہیں۔یہ پرندے لوگوں کےڈر سے ُدور بھاگتے ہیں اور ُدور دراز گھر بناتے ہیں۔جہاں وہ پُرسکون ہوکر اپنے جیسے دوسرے پرندوں کے ساتھ بِنا ڈر اور خوف کے چہچہا سکیں۔

ایسا ہی ہم انسانوں کے اندر خوف ہے۔ہم بھی اپنے جیسے ،اپنی سوچ کے لوگوں کے ساتھ خوش رہ سکتے ہیں۔مختلف قسم کے لوگوں اور بھانت بھانت کے رویے رکھنے والوں سے ہم ڈرتے ہیں،دور بھاگتے ہیں کہ کہیں ہمیں یہ نقصان نہ پہنچاٸیں،ہمارے بچے نہ چھین لیں۔ ان کو کوٸی نیولہ صفت شخص کھا نہ جاۓ،کوٸی عقاب نما اپنے پنجوں سے گھونسلہ اور بچے نہ چُرا لے،کوٸی سانپ نما انسان اندر نہ آجاۓ۔

ہم بھی سکون کی تلاش میں تمام عمر اپنے جیسے ہی لوگوں سے ملتے ہیں۔لیکن اپنے جیسے ملتے جلتے لوگ کسی اور جیسے ہوجاتے ہیں۔کوٸی اور رنگ اپنا لیتے ہیں۔کیونکہ وہ یہ دیکھ لیتے ہیں،بھانپ لیتے ہیں کہ اگر ہم صرف چڑیا بن کر،تنکا تنکا اکھٹا کرکے اپنے گھونسلے پر ساری تواناٸی لگا دینگے تو نہ گھونسلہ بچے گا،نہ بچے۔وہ لوگ خودپر لومڑی کا خول چڑھا لیتے ہیں،مکاری سیکھ لیتے ہیں۔اور لومڑیاں فطرتاً کسی کی وفادار نہیں ہوتیں سواۓ اپنی ذات کے۔

انسان کو اللہ نے اشرف المخلوقات تو بنایا ہے لیکن یہ اپنی خلقت سے ِگر کر جانوروں کی خصلت اپنا بیٹھا ہے۔چھیننا،جھپٹنا،اکٹھا کرنا اور اپنا اُلّو سیدھا کرنا۔

معصوم تو چڑیا ہے ،نہ ایک جگہ رہتی ہے،نہ گھر بناتی ہے۔اللہ تعالی کی عطا کردہ وسیع وعریض زمین میں کہیں بھی رہ لیتی ہے۔ جہاں سے دانہ مل جاۓ چگ لیتی ہے،پانی پیتی ہے اور خوشی سے اُڑتی پھرتی ہے۔اندھیرے سےپہلے اپنے ٹھکانے کو لوٹ جاتی ہے۔یہ حکمت اللہ تعالی نے اس چھوٹے سےپرندے کو سکھاٸی ہے،اور یہ بھی کہ جتنی بے غرضی ہوگی ،ُاتنی ہی وہ اونچا اُڑے گی۔غرض کے بوجھ کے ساتھ وہ کبھی اونچی اُڑان نہیں لے سکے گی۔

ہم انسان بھی اگر بے غرض ہوجاٸیں،اپنے بوجھ ہلکے کرلیں تو اللہ تعالی اس کو پھر سے وہی مقام عطا کریں گے ،جس مقصد کے لیے اللہ تعالی نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں بہتر جانتا ہوں ،کیوں انسان کو میں نے مٹی سے پیدا کیا۔

خاک کے پتلے نے خاکی ہی ہونا ہے تو خوف کیسا کھونے کا؟۔

جب ہم اپنا وجود تسلیم کریں گے ویسا ہی جیسے تسلیم کرنے کا حکم ہے،اَسلمتُ۔(I surrender) تب ہی ہم اصل سے جڑے رہیں گے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Selected by Author

Ad Space Available

Share this Post

Facebook
Twitter
LinkedIn

Related Posts

Translate »